Post by Admin on Jul 9, 2017 14:23:55 GMT
اقسام احکامِ شرع
علمائے اسلام نے احکام الٰہی کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک تو وہ جن میں ہاتھ پاؤں اور زبان وغیرہ اعضا کے عمل کی احتیاج ہو جیسے نماز، روزہ ، حج زکوٰۃ وغیرہ۔ دوسرے وہ جن میں اعمال جوارح کی حاجت نہ ہو بلکہ ان کا صرف مان لینا ہی کافی ہو جیسے اللہ تعالےٰ کو ایک جاننا اور اسکو سمیع، بصیر علیم وغیرہ وغیرہ تمام اوصاف کو برحق جاننا اور حشر و نشر۔ اور بہشت و دوزخ اور عذابِ قبر اور سکراتِ موت وغیرہ کو سچا جاننا۔
فقہائے عظام نے رفاہِ عامہ کی خاطر قرآن مجید اور احادیث نبویہ سے پہلی قسم کے تمام احکام کو فراہم کرکے تفصیل سے علیحدہ مرتب کیا اور اسکا نام فقہ رکھا۔ اور دوسری قسم کے احکام کو الگ تفصیل سے لکھا اور اسکا نام عقائد رکھا۔
مشروعات
غرض شرع اسلام کے مسائل کا انحصار پانچ قسموں پر ہے۔ (1) اعتقادات (2) عبادات (3) معاملات (4) عقوبات (5) کفارات
اول: اعتقادات بھی پانچ ہیں ۔ (1) اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا (2) ملائکہ پر ایمان لانا۔ (3) اللہ تعالےٰ کی کتابوں پر ایمان لانا (4) اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان لانا ۔ (5) قیامت پر ایمان لانا
دوم: عبادات کی بھی پانچ قسمیں ہیں:۔ (1) نماز (2) روزہ (3) زکوٰۃ (4) حج (5) جہاد
سوم: معاملات بھی پانچ ہیں:۔ (1) معاوضات یعنی لین دین (2) مناکحات یعنی بیاہ شادی (3) مخاصمات یعنی لڑائی جھگڑے (4) امانات (5) شرکات یعنی ساجھی وغیرہ
چہارم: عقوبات بھی پانچ ہیں :۔ (1) قتل عمد کی سزا جیسے قصاص وغیرہ یعنی بدلہ لینا اور قتل کرنا ۔ (2) مال لینے کی سزا جیسے چور کے ہاتھ کاٹ ڈالنا وغیرہ (3) ہتک ستر کی سزا جیسے کوڑے لگانا، پتھر برسانا زنا وغیرہ میں (4)ہتک عزت کی سزا جیسے قذف کی حد (قذف کے معانی زنا کا عیب لگانے کے ہیں)۔ (5) خلع بیعت کی سزا جیسے قتل کرنا۔
پنجم :۔ کفارات بھی پانچ ہیں (1) کفارہ قتل (2) کفارہ ظہار یعنی اپنی بیوں کو ماں بہن بنانے کا۔ (3) کفارہ روزہ توڑنے کا (4) کفارہ جھوٹی قسم کھانے کا۔ (5) جنایات حج کا۔
اقسام علم عقاید
علمائے اسلام نے عقائد کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ جن کی تشریح بتفصیل ذیل ہے؛۔
قسم اول
پہلی قسم کے عقاید وہ ہیں جو یقینی اور قطعی ہیں۔ پھر ان کی تین قسمیں ہیں :۔ (1) جو قرآن مجید کی ظاہر عبارت سے ثابت ہیں۔ (2) جن کا مضمون رسول اللہ ﷺ سے بہ نقل متواتر ثابت ہو۔ خواہ لفظ حدیث متواتر ہوں یا نہ ہوں۔ (3) جن پر امت کا اجماع ہوگیا۔ خواہ وہ دلیل جس کی وجہ سے امت نے اس مسئلہ پر اتفاق کیا ہے قطعی ہو یا نہ ہو۔ یا ہم کو معلوم ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ امت بالخصوص صحابہ کرام رضی اللہ تعالےٰ عنھم و تابعین کا کسی ایسے امر پر اتفاق کرنا جو شارع کی مراد کے برخلاف ہو، ناممکن ہے۔ ان مسائل کا منکر تنہا دائرہ اسلام سے خارج بلکہ احاطہء خطراتِ سلیمہ سے بھی خارج شمار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ مسائل منصف کے نزدیک قانونِ فطرت کے بھی مطابق ہیں
قسم دوم
دوسری قسم کے وہ عقائد ہیں جو دلائل عقلیہ سے ثابت ہیں جن کے ثبوت پر شریعت کا مدار ہے یا اکثر باتیں شرع کی ان پر موقوف ہیں۔ ان کی تائید میں کوئی شرعی دلیل ہو یا نہ ہو جیسا کہ (ثبوتِ باری تعالیٰ) (2) مسئلہ ثبوت صفاتِ باری تعالیٰ (3) مسئلہ ثبوتِ نبوت (4) مسئلہ عصمت انبیاء (5) مسئلہ عصمتِ ملائکہ (6) مسئلہ ثبوتِ حقائق الاشیاء (7) مسئلہ علم حقائق الاشیاء (8) مسئلہ حدوث عالم
قسم سوم
تیسری قسم کے وہ عقائد ہیں جو اخبار احاد سے ثابت ہیں۔ یا علماء نے ان کو قرآن و حدیث سے بطور استنباط ثابت کیا ہے۔ لیکن ان میں ہام فرقہ اسلامیہ کا اختلاف ہے جسکی وجہ سے جدا جدا ناموں سے نامزد کیئے گئے۔ اسلیئے ان کو باہمی امتیاز کے لیئے ہرایک فریق نے اپنی کتب عقاید میں درج کیا۔ جیسا کہ (1) مسئلہ قِدم قرآن (2) مسئلہ فضیلت انبیاء برملائکہ (3) مسئلہ فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم یکے بردیگرے۔ (4) مسئلہ الاعمال الصالحۃ جُزء الایمان۔ (5) مسئلہ الایمان والاسلام واحد (6) مسئلہ کرامات الاولیآء حق ۔ (7) مسئلہ ایصال و ثواب ۔ (8) مسئلہ امامت (9) مسئلہ جبروقدر وغیر ذٰلک من الخلافیات
ان مسائل میں اہلسنت سلف صالحین صحابہ کرام رضی اللہ تعالےٰ عنھم و تابعین رحمتہ اللہ علیھم کے پیرو ہیں اور ان کے مخالف لوگ محض اپنے خیالات سے ان نصوص کا انکار یا تاویل کرتے ہیں۔ مثلاً (1) شیعہ مسئلہ امامت میں غلو کی وجہ سے اکثر صحابہ خصوصاً حضرت ابوبکر صدیق، عمر خطاب، عثمان غنی رضی اللہ عنھم کو خاطی اور برا کہتے ہیں۔ اکثر احادیث صحیحہ کا انکار اور قرآن مجید کی آیات کی تاویل کرتے ہیں۔ (2) خوارج و نواصب جو حضرت علی ، امام حسین، حضرت عثمان اور ان صحابہ کو جن کا باہم سردار قائم کرنے میں اختلاف ہوکر قتال و جدال کی نوبت پہنچی۔ سب کو برا کہتے ہیں۔
خوارج ۔ 72 فرقوں کا حدوث
ان فرقوں کا حدوث اس طور پر ہوا کہ اہل اسلام اور جمہور مسلمین سے سب سے اول جس نے مخالفت کی اور نیا گروہ بنا وہ خوارج یعنی خارجی لوگ ہیں۔ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں پیدا ہوئے۔ ان کے پیدا ہونے کی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی۔ یہ جماعت عرب کے وہ لوگ تھے جو پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالےٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ پھر سخت مخالفت اور مقابلہ کے لیئے آمادہ ہوگئے۔ یہ لوگ علی ، عثمان، معاویہ، حسین سب کو برا جانتے ہیں۔
اسی عہد میں ایک اور جماعت نکلی جو بظاہر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرفداروں میں سے تھی۔ ان کو یہ افراط و تفریط عارض ہوئی کہ حضرت علی سے جن جن صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو مسئلہ خلافت میں خلاف ہوا تھا۔ یا ان انتظامی باتوں میں نزاع بڑھتے بڑھتے لڑائی تک نوبت آگئی تھی۔ سب کو مخالف قرآن و حدیث مردود و کافرومرتد کہنے لگے۔
شیعہ
بعض کو یہاں تک خبط ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا کہنے لگے۔ وہ دراصل مشرکین زندیق لوگ تھے۔ جنہوں نے ظاہر میں اسلام اختیار کرلیا تھا۔ اس فریق کا نام شیعہ یا رافضیہ ہے۔ یہ لوگ بھی قرآن و احادیث کا مطلب اپنی خواہش اور قرارداد باتوں کے موافق کرتے ہیں۔ اور جس طرح خوارج نے جھوٹی روایات اثبات مدعا کے لیئے بنانی شروع کیں۔ اسی طرح اس فریق نے بھی۔ یہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق ، عمر خطاب، عثمان غنی، عائشہ صدیقہ، عباس، عبداللہ ابن عباس، طلحہ و زبیر رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین وغیرہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام کو برا کہتے ۔ اور امامت حضرت علی اور ان کی اولاد کا موروثی حق قرار دیتے ہیں۔ انکے نزدیک وہ مسلمانوں کی رائے اور اختیار کی بات نہ تھی کہ بلحاظ حسن خدمات و لیاقت و دیانت وتقوےٰ و اصابت رائے جس کو مسلمانوں نے خصوصاً مہاجرین و انصار کے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے انتخاب کرلیا وہ خلیفہ ہوگیا۔
جس طرح خوارج کے باہم تھوڑی باتوں پر اختلاف کرنے سے کئی فریق ہوگئے۔ اسی طرح شیعہ میں بھی کئی فریق ہوگئے۔ چنانچہ زیدیہ، اسماعیلیہ، امامیہ وغیرہ فریق ہوگئے۔
قدریہ
پھر تابعین کے عہد بلکہ اخیر زمانہ ء صحابہ کرام میں ایک اور فرقہ پیدا ہوا جس کو قدریہ کہتے ہیں۔ ان کی دو جماعت ہوگئیں۔ ایک منکر قدر و تقدیر کہ بندہ جو کچھ کرتا ہے آپ کرتا ہے۔ قضا و قدر کچھ نہیں۔ یہ مختار مطلق ہے۔
جبریہ
دوسرا کہنے لگا کہ جو کچھ ہے تقدیر سے ہے بندہ کو کچھ بھی اختیار نہیں۔ اینٹ لکڑی کی طرح مجبور محض ہے۔ قضا و قدر جدھر لے چلتی ہے چلتا ہے ان کو جبریہ کہنے لگے۔
معتزلہ
ان کے تھوڑے دنوں بعد تابعین کے عہد میں ایک اور فرقہ نکلا جو کہتے تھے کہ اہل معاصی کے لیئے رسول اللہ ﷺ کی شفاعت نہیں۔ نہ آخرت میں دیدارِ الٰہی ممکن ہے۔ یہ فریق فلسفی اور حکیمانہ خیالات کا پابند تھا۔ اسی کے موافق قرآن و حدیث کو کرنا چاہتا تھا۔
مرجیہ
ان کے بعد فرقہ مرجیہ پیدا ہوا جو کہتے تھے کہ صرف ایمان لانا کافی ہے۔ عمل کی کوئی ضرورت نہیں۔ مسلمان ہوکر خواہ کوئی زنا کرے، نماز نہ پڑھے، زکوٰۃ نہ دے ، روزے نہ رکھے ۔ اس کو کچھ خوف نہیں قطعاً عذاب نہ ہوگا۔
جہمیہ
ان کے بعد خلافتِ عباسیہ کے قریب وسط میں ایک اور فرقہ پیدا ہوا جس کا نام جہمیہ ہے۔ یہ لوگ صفاتِ باری تعالیٰ کے منکر تھے۔ اور طرح طرح کی بدعات خلافِ جمہور اہل اسلام ایجاد کررکھی تھیں۔ مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیئے اسی فورم کے دیگر آرٹیکلز ملاحظہ ہوں۔
ہندوستان میں تین فرقے اور پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک نیچری دوم چکڑالوی سوم مرزائی وغیرہ جن کا عقیدہ جمہور اہل اسلام کے خلاف ہے۔ غرض تہترواں فرقہ جس سے یہ سب فرقے نکلے ہیں ۔ فرقہ ناجیہ اہلسنت وجماعت کا ہے۔
فرقہ ناجیہ
اہل اسلام کے سب فرقوں میں فقط اہلسنت و جماعت کا فرقہ ناجیہ ہے (نجات پانے والا) چنانچہ امام احمد، ترمذی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ عنقریب میری امت میں 72 بہتر فرقے ہوجائیں گے۔ وہ سب کے سب دوزخی ہونگے۔ مگر ایک فرقہ نہ ہوگا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ وہ کونسا فرقہ ہے۔ فرمایا جو میرے طریقے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوگا۔
سو اسی کے مطابق ہوا کہ خلفائے راشدین کے بعد امت میں باعتبارِ جزئیات عقاید کے اختلاف شروع ہوا۔ حضور ﷺ اور انکے اصحاب اور اہل بیت کا جو طریقہ چلا آتا تھا اس میں بعض بعض نے کجی اور شرارت کرکے چند لوگوں کو بہکا پھسلا کر اپنے ساتھ کرلیا۔ اور بعض بعض امور میں جمہور سے مخالف ہوگئے اور ان کے گروہ کا ایک جدا نام قرار پایا یہانتک کے بہتر تک نوبت پہنچی۔ اور جس میں سے وہ جدا ہو ہو کر الگ ہوئے تھے وہ گروہ ِ اعظم اہلبیت و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالےٰ علیھم اجمعین اور رسول اللہ ﷺ کے طریقہ پر جو تھا تہترواں 73واں فرقہ ہے اور اسکا نام فرقہ ناجیہ یعنی نجات پانے والا ہے۔ اور یہ اہل سنت و جماعت کا فریق ہے۔
مسائل جزئیہ میں اختلاف کی وجہ
اہل سنت والجماعت اصول و عقاید میں سب متفق ہیں ۔ ہاں جزئیات میں کسی قدر اختلاف ہے۔ سو جزئیات عملیات میں اختلاف ہونا موجبِ وسعت ہے۔ کما قیل۔ اختلاف العلمآء رحمۃ یعنی علما کا اختلاف رحمت ہے
جزئیات میں اختلاف کی وجہ یہ ہے:
اول تو موقع اجتہار میں ہر مجتہد اپنی اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے۔ پس جسکی رائے میں جو مسئلہ جسطرح آیا۔ اس نے اسکو مسُلم رکھا۔ اور کو اس سے اختلاف ہوا۔ مثلاً (1) اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ 28 میں ارشاد فرمایا۔ والمطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلٰثۃ قروع۔ یعنی اور طلاق دی ہوئی عورتیں تین قروء تک نکاح نہ کریں
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی رائے اس طرف گئی کہ قروء سے مراد یہاں طُہر ہے تو ان کے نزدیک عدت طہر قرار پایا۔
امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی رائے سلیم اس طرف گئی کہ اس سے حیض مراد ہے ۔ سو ان کے نزدیک عدت حیض قرار پایا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ ع 2 میں ارشاد فرمایا ہے۔ وامسحوا برؤسکم (یعنی اور (وضو میں) اپنے سر کا مسح کرو
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے قرائن اور ادلہ سے تمام سر کا مسح ثابت کیا ہے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے چوتھائی سر کا۔ اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ایک بال کا مسح بھی کرلے گا تو کافی ہوگا۔ علےٰ ہذا القیاس
دوم۔ بعض احادیث میں ایک امام کو بسبب کم واسطہ ہونے کے بسند صحیح پہنچی۔ بعض کو بسبب آجانے بیچ میں کسی راوی ضعیف کے سند غیرصحیح سے پہنچی۔ پس اول نے اسکو عمل کے قابل سمجھا ۔ دوسرے نے ضعیف جان کر چھوڑ دیا۔ اختلافِ مسئلہ میں واقع ہوا۔
سوم: رسول اللہ ﷺ امت کی آسانی کے لیئے ایک کام کو مختلف طور سے ادا کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اگر ایک ہی طور پر ہو تو بعض کو دقت پیش آئے۔ مثلاً نماز میں اکثر آپ سوائے تکبیر تحریمہ کے ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔ اور کبھی اٹھا بھی لیتے تھے۔ پس جس صحابی رضی اللہ عنہ نے رفع یدین کرتے دیکھا۔ اسکی روایت امام شافعیؒ کو پہنچی۔ انہوں نے رفع یدین نماز میں سنت سمجھا۔ اور جس صحابی رضی اللہ عنہ نے رفع یدین نہ کرتے دیکھا۔ اسکی روایت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کو پہنچی۔ ان کے نزدیک نماز میں رفع یدین نہ کرنا سنت ٹھہرا۔
چہارم: بعض کام کو رسول اللہ ﷺ نے ابتداء میں کیا۔ پھر اس کو ترک کردیا۔ جس صحابی رضی اللہ عنہ نے کرتے دیکھا اور پھر اس کو ترک کی خبر نہ پہنچی۔ اس نے اسکو سنت سمجھا۔ پس اسکی روایت جس امام کو پہنچی۔ اس کے نزدیک سنت ٹھہرا۔ اور جس صحابی نے آپ کو ترک کرتے دیکھا اس کی روایت دوسرے امام کو پہنچی۔ اس نے ترک کرنا سنت جانا۔ علےٰ ہذا القیاس
اس قسم کے اسباب سے جزئیات میں اختلاف واقع ہوا۔ ورنہ عقاید سب کے ایک ہیں۔ دو ایک جگہ جو اختلاف ہے سو وہ تحقیقی وعلمی ہے۔ کچھ اختلاف کی بات نہیں۔
خلاصہ یہ کہ امام شافعی ؒ، اور امام اعظم ؒ کا جو بعض مسائل فقہیہ میں اختلاف ہے سو یہ کچھ اختلاف ایسا نہیں ہے کہ جس سے دونوں کو الگ الگ فریق سمجھا جائے۔ اس لیئے کہ اصول سب کا ایک ہے۔ مسائل اجتہادیہ میں اپنی اپنی سمجھ اور احادیث کی صحت و ضعف و اعتبار و عدم اعتبار اور انکے معنی سمجھنے کا فرق ہے۔ ایسا اختلاف صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمتہ اللہ علیھم میں بھی تھا اور ہونا بھی چاہیئے تھا۔ اسلیئے کہ ہرایک کی سمجھ اور علم اور حفظ یکساں نہیں۔
اسکی دوسری مثال یوں سمجھیئے کہ مثال کے طور پر (یامحمداہ) کا نعرہ لگانے کی حدیث و تاریخ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے جو بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے (یامحمداہ یعنی یارسول اللہ مدد) کا نعرہ لگایا تو اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ عقاید کا ایک جز ہے جو حدیث سے اور تاریخ سے بیان ہوئی ہے۔ مقصد یہ کہ فروعی معاملات میں اختلاف ، عقائد میں اختلاف نہیں۔ جیسے اس حدیث کو سب محدثین مؤرخین نے بیان کیا چاہے وہ چار مذاہبِ اسلام میں سے کسی سے بھی متعلق ہوں۔