Post by Admin on Jul 22, 2017 13:59:35 GMT
Abu Talha Kharji Ki Bakwas (first of all) read his ridiculous writing:
آج صرف 5 منٹ اس تحریر کو لازمی دیں .....
صوفیاء کرام کا فلسفہ توحید کیا ھے۔؟
صوفیاء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت اور ریاضت کے ذریعے سے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جز سمجھنے لگتا ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں اس عقیدہ کو ’’وحدت الوجود‘‘ کہا جاتا ہے۔ عبادت و ریاضت میں مزید ترقی کرنے کے بعد انسان کی ہستی اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے اور وہ دونوں (خدا اور انسان) ایک ہو جاتے ہیں، اس عقیدہ کو ’’وحدت الشہود‘‘ یا ’’فنا فی اللہ‘‘ یا ’’مجذوب‘‘ کہا جاتا ہے۔ عبادت و ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور شفاف ہو جاتا ہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہو جاتی ہے جسے ’’حلول‘‘ کہا جاتا ہے۔صوفیاء کی ان تینوں نامزد اصطلاحات میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے۔البتہ نتیجے کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ کہ ’’انسان اللہ کی ذات کا جز اور حصہ بن جاتا ہے۔‘‘ یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ ہندو مت کے عقیدے ’’اوتار‘‘، بدھ مت کے عقیدہ ’’نروان‘‘ اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ مسلمانوں میں اس کی ابتدا عبداللہ بن سبا نے کی، جو یمن کا یہودی تھا۔ یہ شخص عہد نبوی ؐمیں یہودیوں کی ذلت و رسوائی کا انتقام لینے کے لیے منافقانہ طور پر ایمان لایا اپنے مذموم عزائم کو بروئے کار لانے کے لیے حضرت علیؓ کو مافوق البشر ہستی باورکرانا شروع کیا اور بالآخر اپنے معتقدین کا ایک حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ لوگ حضرت علیؓ کو خلافت کا حق دار اور باقی خلفاء کو غاصب سمجھتے تھے۔ اس گمراہ کن پروپیگنڈے کے نتیجے میں خوں ریز جنگیں ہوئیں۔ حضرت علیؓ سے محبت و عقیدت کے نام پر بالآخر اس نے حضرت علیؓ کو اللہ تعالیٰ کا روپ یا اوتار کہنا شروع کر دیا اور مشکل کشا، حاجت روا، عالم الغیب اور حاضر و ناظر جیسی خدائی صفات ان سے منسوب کرنا شروع کر دیں، اس مقصد کے حصول کے لیے بعض روایات بھی وضع کی گئیں۔ جیسے ’’اگر علی نہ ہوتے تو اے محمدؐ تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘ یا جنگ احد میں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے تو جبرائیل نے آ کر کہا: ’’اے محمدؐ علی کو پکارو‘‘جب رسولؐ اکرم نے یہ دعا پڑھی تو حضرت علیؓ فوراً مدد کو آئے اور کفار کو قتل کرکے آپؐ کو اور تمام مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچا لیا۔صوفیاء کے سرخیل حسین بن منصور حلاج (ایرانی) نے سب سے پہلے کھلم کھلا یہ دعویٰ کیا کہ خدا اس کے اندر حلول کر گیا ہے اور انا الحق (میں اللہ ہوں) کا نعرہ لگایا۔ منصور حلاج کی تائید اور توصیف کرنے والوں میں سے حضرت علی ہجویریؒ ، پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ، سلطان الاولیاء خواجہ نظام الدین اولیاءؒ قابل ذکر ہیں۔حضرت احمد رضا خاں بریلویؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا ’’میں اللہ ہوں‘‘ کیا درخت نے یہ کہا تھا؟ حاشا، بلکہ اللہ نے ۔ اسی طرح یہ حضرات (صوفیا) انا الحق کہتے وقت شجرِ موسیٰ ہوتے ہیں۔‘‘ حضرت بایزید بسطامی نے بھی اسی عقیدے کی بنیاد پر دعویٰ کیا ۔ ’’میں پاک ہوں میری شان بلند ہے۔‘‘ وحدت الوجود یا حلول کا نظریہ ماننے والے حضرات کو نہ تو خود خدائی کا دعویٰ کرنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے، نہ ہی ان کے پاس کسی دوسرے کا دعویٰ خدائی کو مسترد کرنے کا کوئی جواز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کی شاعری میں رسول اکرم ؐ اور اپنے پیر ومرشد کو اللہ کا روپ یا اوتار تسلیم کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہوں چند اشعار:
خدا کہتے ہیں جس کو مصطفےٰ معلوم ہوتا ہے
جسے کہتے ہیں بندہ خود خدا معلوم ہوتا ہے
شریعت کا ڈر ہے وگرنہ یہ کہہ دوں
خدا خود رسولِ خدا بن کے آیا
***
پیرِکامل صورت ظل الہ
یعنی دیدِ پیر دیدِ کبریا
یعنی کامل پیر گویا ظلِ الہ ہے، ایسے پیر کی زیارت خدا کی زیارت ہے۔
جھلے لوگ جہاں دے بھلے پھردے سب
سامنے ویکھ کے پیر نوں فیروی پُچھدے رب
***
اللہ میاں نے اپنا ہند میں نام
رکھ لیا خواجہ غریب نواز
***
چاچڑ وانگ مدینہ دِسےّ تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
ظاہر دے وچ پیر فریدن تے باطن دے وچ اللہ
قدیم و جدید صوفیاء کرام نے فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کو درست ثابت کرنے کے لیے بڑی طویل بحثیں کی ہیں لیکن سچ تو یہ ہے جس طرح ہندوؤں کا فلسفہ اوتار اور عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث ’’ایک میں سے تین اور تین میں سے ایک‘‘ ناقابل فہم ہے اسی طرح صوفیاء کا یہ فلسفہ ’’کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کیے ہوئے ہے‘‘ بھی ناقابل فہم ہے اور اگر یہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ ہے اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عابد کون ہے معبود کون؟ ساجد کون ہے اور مسجود کون ؟ خالق کون ہے اور مخلوق کون؟ گنہگار کون ہے اور بخشنے والا کون؟ روز جزاء حساب لینے والا کون ہے اور دینے والا کون ؟ اس فلسفہ کو تسلیم کرنے کے بعد انسان، انسان کا مقصد تخلیق اور آخرت یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کا اللہ کی ذات کا جز تسلیم کرنا یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا، ایسا کھلا اور عریاں شرک فی الذات ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب بھڑک سکتا ہے۔
ظاہر ہے کسی کو اللہ کا جز قرار دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس بندے میں اللہ تعالیٰ کی صفات تسلیم کر لی جائیں۔ مثلاً وہ حاجت روا اور اختیارات اور قوتوں کا مالک ہے پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی رضا حاصل کی جائے جس کے لیے بندہ تمام مراسم عبودیت ، رکوع، سجود، نذر و نیاز، اطاعت و فرماں برداری بجا لاتا ہے۔ عقیدہ توحید کے ساتھ فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کھلم کھلا عریاں تصادم ہے جس میں بے شمار مخلوق خدا پیری مریدی کے چکر میں آ کر پھنسی ہوئی ہے۔
’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔‘‘ (سورۃ زمر۔ 45)
یہاں بتلانا یہ مقصود ہے کہ جن بد قسمتوں کو یہ بیماری لگ گئی ہے کہ وہ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ اکیلے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ضرور یہ شخص بزرگوں اور اولیاء کو نہیں مانتا جبھی تو بس اللہ ہی کی باتیں کیے جاتا ہے اور اگر دوسروں کا ذکر کیا جائے تو دل کی کلی کھل اٹھتی ہے اور بشاشت سے ان کے چہرے دمکنے لگتے
ہیں۔ اس طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اصل میں دلچسپی اور محبت کس سے ہے؟
علامہ آلوسی نے تفسیر المعانی میں اس مقام پر خود اپنا ایک تجربہ بیان فرمایا ہے کہ ایک روز میں نے دیکھا ایک شخص اپنی کسی مصیبت میں ایک وفات یافتہ بزرگ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ میں نے کہا۔ اللہ کے بندے اللہ کو پکار۔ وہ خود فرماتا ہے۔
’’وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب’‘ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔‘‘ (سورہ بقرہ۔186)
’’اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔‘‘
میری یہ بات سن کر اسے غصہ آیا اور بعد میں لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ یہ شخص اولیاء کا منکر ہے اور بعض لوگوں نے اس کو یہ کہتے بھی سنا کہ اللہ کی نسبت ولی جلد سن لیتے ہیں۔ ایسے لوگ رب تعالیٰ کے بارے بھی انسانوں جیسی کمزوریوں کا تصور رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سفارش اور وسیلے کے ذریعے ان کی دعا و پکار جلدی سن لیتے ہیں اور ان وفات یافتہ بزرگوں کے ذریعے ان کی مشکلات جلدی رفع ہو سکتی ہیں۔ اس لیے تو کہا گیا ہے کہ شرک کے بد ترین ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے عیب ثابت کرنے کے مترادف ہے۔شرک کرنا سرکشی اور بغاوت ہی نہیں، اللہ کی توہین بھی ہے کہ سفارش اور وسیلہ کی تلاش میں اللہ تعالیٰ کی پاک، مقدس، منزہ ذات کو مخلوقات کی ناقص صفات سے داغدار کرتے ہیں۔ اس لیے شرک ایک گناہِ کبیرہ ہے۔
(i)اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْم’‘ عَظِیْم’‘ (سورۃ لقمان ۔ 13)
’’شرک سب سے بڑا ظلم (گمراہی ۔ گناہ) ہے۔‘‘
واللہ اعلم۔۔
Snaps of his pathetic writing:
Answer to This pathetic disgusting khawarijite
Authentic Answer of Ahlu Sunnat Wajamat , and showing this kharji's mentality and ignorance.
Answer to This pathetic disgusting khawarijite
Authentic Answer of Ahlu Sunnat Wajamat , and showing this kharji's mentality and ignorance.
ایک خارجی گوگل ملونگڑے کی بکواس پوسٹ کا رد اور جواب
وحدتِ الوجود کیا ہے؟
تحریر غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اللہ علیہ
پیشکش : عمران خوئیزئی
ابتدائیہ: از عمران خوئیزئی
خوارج چونکہ جہالت کا پلندہ ہوتا ہے۔ خود چونکہ اسلام سے باہر ہوتے ہیں اسی لیئے اسلام سے ناواقفیت بھی اتم درجہ کی رہتی ہے ان میں، اور کبھی کبھی اسی جہالت کے پیش نظر یہ لوگ ہر موضوع پر بک بک کرنی ضروری سمجھتے ہیں چاہے وہ ان کے ناقص تخیل کی گرفت میں آسکے یا نہ آسکے۔ ایسی ہی ایک پوسٹ ایک گوگل مفتری کی گزری چونکہ ان خوارج میں ہر ٹام ڈِک اینڈ ہیری خود کو مفتی اور مفکر سمجھتا ہے اسلیئے کبھی کسی چیز کو کفر شرک قرار دے دیتے ہیں تو کبھی کسی چیز کو۔ جن مسائل پر عظیم ترین اسلاف نے کتابوں کی کتابیں لکھ کر بھی یہ نہیں کہا کہ وہ اسکو کامل سمجھ سکے ہیں وہاں چند فسادیانہ تحریروں کو کرکے یہ لوگ اپنے جیسے دیگر جہلاء جو ان کے ہی نقشِ قدم پر چلتے ہیں ان کے لیئے مزید جہنم میں آگ بھڑکانے کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے ہی مسائل میں اسے ایک ہے نظریہ وحدت الوجود۔ ایک خارجی صاحب کی بکواس نظر سے گزری جس میں کہیں اسکو ہندوانہ نظریات کی پیروی قرار دیا تو کہیں ان جاہلوں نے اسکو نظریہ حلولِ عیسائیت سے جوڑا۔ حالانکہ اصل اوقات انکی یہ تک نہیں کہ ان کو پتہ ہو کہ وحدت ِ وجود ہے کیا؟۔ چونکہ یہ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور پھر وہ اسلام جو صوفیاء کی نسبت ان کے آباؤ اجداد تک پہنچا ۔ یہ ناقص الخون لوگ اپنی جہالت میں ان کو ہی اسلام سے باہر بتانے کی خاطر اپنے خبثِ باطن اور حرام کھانے کی وجوہات کی بنا پر کافر گردانتے ہیں تو یہ پہلا جواب ہے ان کی خدمت میں۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس پرفتن دور میں حق و باطل میں تمیز کرنا بے حد دشوار ہوگیا ہے، دلائل و شواہد کی بھول بھلیوں میں صحیح راستہ اختیار کرنا عوام الناس کے لیئے ممکن نہیں رہا۔ اس کے باوجود میں کوشش کروں گا کہ وہ بات جو انتہائی ادق اور پیچیدہ ہے، وہ بے حد سادہ اور عام فہم انداز میں آپ تک منتقل کردوں تاکہ وہ تمام شکوک و شبہات جو موضوع کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں یا پیدا کیئے جاتے ہیں ان کا شافی جواب میسر آسکے۔
کلمہ طیبہ دین کی بنیاد ہے۔ یہ کلمۃ التوحید ہے، یہ وہ جوہر ہے جو اگر ہم میں ہے تو ہم ہیں اور اگر ناپید ہے تو ہم کالعدم ہیں۔ "لاالہ الا اللہ" کا مفہوم میں آپ پر واضح کرتا چلوں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہیں کی جاسکتی۔ یا یو کہیئے کہ اس کی ذاتِ مقدسہ وحدت کی صفت سے متصف ہے۔ اگر کوئی اسکی ذات میں شریک متصور ہو تو (لاالہ الا اللہ) کی نفی ہوگی اور اگر کوئی اسکی صفات میں شریک مانا جائے تب بھی کلمہ طیبہ کی نفی ہوگی۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ذات کا تعلق اور تصور صفات علیحدہ ہوکر ممکن نہیں ، انسان کی ذات اسکے جسم، شکل و شباہت، عادات و اطوار کے بغیر کچھ نہیں۔ آپ کسی مکان کے بارے میں سوچیں تو جب تک اس کے بام و در، اسکی تعمیر، اسکا خاکہ آپ کے ذہن میں نہ آئے تب تک مکان کا تصور قائم نہیں ہوتا۔
رب تعالیٰ اپنی ذات اور صفات دونوں میں وحدہ لا شریک ہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ صفات میں شرک کا مفہوم تو سمجھ میں آتا ہے ، وہ سمیع و بصیر ہے، وہ علیم و خبیر ہے، وہ حیی و قیوم ہے، وہ رحمٰن و رحیم ہے، وہ قہار و جبار ہے، وہ تواب و غفار ہے، یہ تمام صفات اسکی ہیں۔ چنانچہ اسکے سوا کسی کو سمیع و بصیر مانو تو مشرک، علیم و خبیر اسکے سوا کسی کو گردانو تو شرک، اس کے سوا کسی کو حیی و قیوم سمجھو تو شرک، اسی طرح اسکی کسی صفت کو کسی دوسرے کے لیئے تسلیم کرو تو شرک ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ذات میں شرک کا مفہوم کیا ہے؟۔ ہم کسی کو اسکی ذات میں کیسے شریک ٹھہرا سکتے ہیں؟
ظاہر ہے اسکا جواب فوری طور پر ذہن میں یہ آتا ہے کہ اسکے سوا کسی کو (الٰہ) مانو تو یہ ذات میں شرک ہوگا۔ میں عرض کروں گا کہ یہ درست نہیں ، وہ اسلیئے کہ الوہیت بھی اسکی صفت ہے، اس کے علاوہ کسی کو الٰہ ماننے سے اسکی صفتِ الوہیت میں شرک ہوگا نہ کہ اسکی ذات میں، تو پھر ذات میں شریک ہونے کا مفہوم کیا ہے؟۔
خدا کی پہلی صفت
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیئے ہمیں مزید غور و خوض سے کام لینا ہوگا۔ خدا تعالیٰ کی سب سے پہلی صفت (صفتِ وجود) ہے۔ "وجود" کا مفہوم کیا ہے؟ کیا وجود جسم کو، اس کے اعضاء کو، گوشت پوست ، ہڈیوں اور خون کو کہتے ہیں؟۔ گفتگو کے دوران ہم کہتے ہیں کہ میرا جسم کمزور ہوگیا ہے، میرے اعضاء متناسب ہیں، میری ہڈیاں مضبوط ہیں، میرا خون بہہ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ اور ہیں اور ہمارا جسم ، ہمارے اعضاء ، ہمارا گوشت ہڈیاں خون، وغیرہ کچھ اور ہیں، جیسے ہم کہیں کہ یہ میرا مکان ہے، یہ میرا کمرہ ہے ، یہ میری کتاب ہے یہ میرا لباس ہے، ظاہر ہے کہ جسے ہم نے اپنا کہا ہے وہ کچھ اور ہے اور ہم کچھ اور ہیں۔
اب "وجود" کا مفہوم سمجھیئے۔ "الوجود شدن" یعنی وجود کے معنی ہیں "ہونا" ۔ یوں سمجھیئے کہ "ہست ونیست" "وجود و عدم" ۔ ہست "ہونا" اور نیست "نہ ہونا" ہے۔ وجود "ہونا" ہے ۔ عدم "نہ ہونا " ہے۔ ذات کی پہلی صفت "وجود" ہے۔ ہم کہیں کہ زید ہے، یا زید نہیں ہے۔ ہم نے زید پر"ہونے" یا "نہ ہونے" کا حکم لگایا ہے۔ گویا ہونا نہ ہونا زید کی صفت ہے۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ یہ صفت عین ذات ہے یا غیر ذات۔
اگر ہم پہلے اللہ کی صفت وجود کو نہ مانیں تو نہ ہم اسکو سمیع و بصیر مان سکتے ہیں نہ حیی وقیوم نہ علیم و خبیر مان سکتے ہیں، نہ رحمٰن و رحیم، نہ اسکی قدرت پر ایمان لا سکتے ہیں نہ اسکی حکمت پر، خدا کی کسی صفت پر ایمان نہیں لایا جاسکتا جب تک اس کی صفتِ وجود کو نہ مانا جائے۔
صفتِ وجود، عین ذات ہے
رہی یہ بحث کہ "وجود" عین ذات ہے یا غیر ذات۔ تو اسکے بارے میں عرض ہے کہ اگر ذات کا "وجود" ہے تو ذات ہے۔ اگر وجود نہیں ہے تو ذات نہیں ہے۔ ذات کا "ہونا" ہی تو ذات ہے۔ گویا ہم صفت وجود کو غیرذات نہیں مانتے بلکہ عین ذات مانتے ہیں۔ یا یوں کہیئے کہ صفت وجود وہ صفت ہے جو عین ذات ہے۔ اس مقام پر ہمیں اس سوال کا جواب ملا کہ صفاتِ الٰہیہ میں شرک کا مفہوم تو واضح ہے لیکن ذاتِ الہٰی میں شرک کا تصور کیا ہے؟۔ اگر ہم غیرخدا کو سمیع و بصیر، علیم و خبیر رحیم و کریم قہار و جبار مانیں تو ہم خدا کی صفات میں شرک کے مرتکب قرار پائے۔ اور اگر ہم نے خدا کے سوا کسی اور کے وجود کو تسلیم کیا تو یہ شرک فی الذات ہونے کے ساتھ شرک فی الصفات بھی ہوا۔
جب ہم نے کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے اپنی ذات میں اپنی صفات میں یکتا ہے تو جب تک ہم یہ نہ مانیں کہ اسکی صفتِ وجود میں کوئی شریک نہیں ، اسکے سوا کسی کا وجود نہیں، اس وقت تک توحید کا صحیح تصور ممکن نہیں۔
ایک شبہ اور اسکا ازالہ
اس پر سوال ہوتا ہے کہ یہ زمین، آسمان، چاند و سورج چرند پرند انسان حیوان نور ظلمت ہدایت و گمراہی خیروشر ان سب کا وجود ہے، اور اگر ہم ان کا وجود مانیں تو اللہ کی صفتِ تخلیق کا انکار لازم آئے گا اور اسطرح ہم شرک سے بچ کر کفر کا شکار ہوجائیں گے۔
اس کے جواب میں عرض ہے کہ وجود ِ حقیقی تو اللہ ہی کا ہے، باقی تمام کائنات کا وجود حقیقی نہیں مجازی ہے۔ حقیقتِ وجود ، وجودِ واحد کے سوا موجود نہیں۔ آئینہ خانے میں جہاں ہرطرف، ہرسمت بے شمار آئینے جڑے ہوں، ایک شمع روشن ہو تو وہ ہر آئینے میں جگمگاتی نظر آتی ہے، ہر عکس اس ایک شمع کا محتاج ہے، وہ ایک شمع بجھ جائے تو ہرسو اندھیرا چھا جائے۔ ساری جگمگاہٹ اور روشنی اسی ایک شمع کی مرہون منت ہے۔ لیکن شاید اس مثال پر اعتراض ہو کہ آئینوں کا تو اپنا وجود ہے، اسلیئے اس بات کو دوسرے انداز میں سمجھنے کی کوشش کیجیئے۔ آپ ایک کمرے میں تشریف رکھتے ہیں۔ آپ کے سامنے چارپائی ہے، یچھے دروازہ ہے، دائیں طرف کھڑکی ہے اور بائیں طرف الماری ہے، آپ کے اوپر چھت ہے اور نیچے فرش ہے۔ اگر آپ رخ پھیر لیں تو آگے پیچھے، دائیں بائیں اوپر نیچے ، ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے۔ آپ ہیں تو یہ سمتیں اور جہتیں بھی ہیں، اگر آپ نہیں تو یہ بھی نہیں۔ آپ جب کمرے میں داخل ہوئے تو ان سمتوں کو ساتھ لے کر نہیں آئے کہ ان کا اپنا علیحدہ کوئی وجود نہیں ہے، آپ کے وجود کے باعث یہ ازخود متصور ہوگئی ہیں۔
اگر ریاضی کے حوالے سے سوچیں تو تمام اعداد "ایک" کے مرہون منت ہیں۔ بلکہ کمپیوٹر میں تو ایک اور صفر صرف یہی عدد استعمال ہوتے ہیں، "ایک" وجود ہے۔ "صفر" عدم ہے۔ باقی تمام اعداد و شمار اسی ایک وجود کے مرہون منت ہیں۔ وجود حقیقی وہی ایک وجود ہے، باقی سب کچھ اسکی صفات کا جلوہ ہے، اسکی قدرت کی کرشمہ سازی ہے، کہیں اس کی صفتِ جلال جلوہ نما ہے ، کہیں اسکے جمال کی جلوہ آرائی ہے۔
جدت پسند اذہان کی تسکین کے لیئے اسی بات کو ایک دوسرے انداز میں عرض کرتا ہوں، کسی مسئلہ کی تحقیق کے لیئے کچھ چیزیں فرض کرلی جاتی ہیں۔ فرض کرو ایک شخص ہے، اسکے فلاں فلاں اہل خانہ ہیں، فلاں حالات سے وہ گذرتا ہے ، اور فلاں صورتِ حال پیش آتی ہے۔ اس صورت میں اس شخص کے لیئے شریعت کا کیا حکم ہے۔ علماء جانتے ہیں کہ مسائل کے استنباط کے لیئے اس نوعیت سے چیزیں فرض کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یا جیسے حساب و کتاب کے معاملات میں سوال حل کرنے کے لیئے چند چیزیں فرض کرلی جاتی ہیں۔ الجبرا میں کہتے ہیں کہ اس چیز کی قیمت خرید فرض کرلی جو برابر ہے "لا" کے۔ اب سب جانتے ہیں کہ "لا" کا تو مفہوم ہے "نہیں"۔ لیکن جب قیمت "لا" فرض کرلی جاتی ہے تو سوال حل ہوجاتا ہے اور جواب تلاش کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔
یہ تمام چیزیں جو ہم فرض کرتے ہیں ان کا حقیقتاً کوئی وجود نہیں ہوتا۔ لیکن عالم فرض میں ایسی بے شمار اشیاء آن واحد میں متحقق ہوجاتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جب کسی شئے کی تخلیق کا ارادہ فرماتا ہے تو فرماتا ہے "کن" تو وہ چیز ہوجاتی ہے
انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقولہ کن فیکون
اس کا حکم یہی ہے جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے کہے ہوجا تو وہ (فوراً) ہوجاتی ہے
ظاہر ہے کہ حقیقی اشیاء کے بنانے میں وقت صرف ہوتا ہے ، فرضی اشیاء کی تخلیق میں نہیں، فرق اتنا ہے کہ جتنی ہماری حیثیت اور وقعت ہے اتنی حیثیت ہماری فرض کی ہوئی چیزوں کی ہے اور خدا کی تخلیق کردہ اشیاء اس حقیقی وجود کے مقابلے میں فرضی ہونے کے باوجود "موجود" معلوم ہوتی ہیں۔ دیکھیئے شاعر بتاتے ہیں اور صوفیاء کرام نے کہا ہے کہ یہ دنیا دراصل عالم خواب ہے، جب ہماری موت آئے گی تو یوں کہیئے کہ ہماری آنکھ کھلے گی۔ تو اس کائنات کو بھی اسی انداز میں خواب تصور کیجیئے۔ لیکن یہ خواب دکھانے والا وہ قادرِ مطلق ہے اسلیئے اس خواب کو خواب سمجھنا بھی خواب و خیال کی بات معلوم ہوتی ہے۔
بہرکیف اس تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام کائنات مجاز ہے، فرضی چیز ہے اور حقیقی وجود صرف اسی کا ہے۔
اب غور کیجیئے "وحدت الوجود" پر یقین رکھنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شرک کیا، کہ یہ چونکہ صرف رب کے وجود کو مانتے ہیں اس لیئے انہوں نے گویا ہرموجود شئے کو خدا تسلیم کرلیا، ان کے کہنے کے مطابق جب خدا کے سوا کچھ نہیں تو پھر جو کچھ ہے وہ خدا ہی ہے، پھر ہرشئے خدا ہے۔ دراصل یہ مغالطہ ہے، شرک تو اسوقت ہوگا جب خدا کے سوا کسی سئے کو مانو گے، تسلیم کرو گے پھر اسے خدا کی ذات و صفات میں شریک ٹھہراؤ گے، جب تمہارا عقیدہ یہ ہوگا کہ خدا کے سوا کچھ نہیں، یہ کائنات رنگ و بو، یہ عالم آب و گل یہ زمین و آسمان یہ ستارے یہ کہکشاں یہ نباتات وجمادات یہ انسانوں کی فوج ظفر موج یہ حشرات الارض یہ سیم و زر کے انبار، یہ اجناس و اثمار، یہ شجر و حجر یہ سب مجاز ہیں۔ یہ سب فرضی چیزیں ہیں یہ ذہن و نظر کا فریب ہے، یہ ساری کائنات اعتباری ہے، حقیقی نہیں خدا کے سوا کچھ نہیں ہے، جب تم اس کے سوا کسی کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو اسکی ذات میں شریک کیسے کرسکتے ہو؟۔ جس کو تم شریک کرنا چاہو گے پہلے اسکے وجود کو تو مانو گے، جو چیز ہے ہی نہیں وہ خدا کی ذات و صفات میں کیسے شریک ہوسکتی ہے؟۔
وما علینا الاالبلاغ المبین
حضرت کا کلام ختم ہوا۔
غور فرمایا آپ نے۔ نظریہ وحدت الوجود کا کسی تناسخ کسی الوہیت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ خالصتاً توحید کا وہ متصوفانہ عقیدہ ہے جو بڑے بڑے جید علماء اور اکابرین نے مانا ہے۔ اگرچہ اسکو مقبولیت نہیں مل سکی جیسے کہ دیگر نظریات کو لیکن اسکا کم از کم شرک سے ہندوؤں کے یا عیسائیوں کے حلول سے قطعاً کوئی تعلق نہیں بنتا جیسا کہ خوارجی جاہل نے اپنی جہالت اور بغض باطن کا اظہار کرتے ہوئے۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روہڑا۔ بھان متی (خارجی) نے کنبہ جوڑا کے مصداق اطلاق کیا ہے اور ایز یوزول اپنی خباثت اور جہالت کا اظہار شرک کا فتویٰ چھاپ کر کردیا۔ اور اپنے جیسے جہلاء کی جہالت میں مزید اضافے کا باعث بنا۔
جو چیز اصل اور خالص الاصل توحید ہے اس کو یہ جاہل لوگ کہاں کہاں اپنی اختراعات سے لیکر کچھ بھی لکھ مارتے ہیں۔ اور اسی لیئے کہا گیا ہے کہ خوارج اسلام سے باہرہیں۔ یہ توحید توحید چلاتے ہیں لیکن ان کی توحید اصل توحید کی (ت) سے بھی واقف نہیں ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ مسلمان جب اللہ کو واحد کہتا ہے تو اس سے مراد "عددی واحد" نہیں کیونکہ اعداد یعنی عدد یعنی ڈیجیٹس بھی اسکی تخلیق اور حادث ہیں۔ اس پر تفصیل سے بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن پوسٹ انتہائی طویل ہوجائے گی سردست صرف ایک خارجی کی جہالت بھری پوسٹ پیش نظر ہے اسلیئے اختصار سے بتایا جارہا ہے۔
ملفوظات شریف صفحہ 110 جلد 1 میں اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام شاہ احمد رضا خان حنفی قادری برکاتی سے سوال کیا گیا
سوال: وحدت الوجود کے کیا معنی ہیں؟
جواب: وجودِ ہستی بالذات، واجب تعالیٰ کے لیئے ہے، اس کے سوا جتنی موجودات ہیں اسی کی ظل پرتَو (یعنی عکس) ہیں تو حقیقتاً وجود ایک ہی ٹھہرا۔
عرض کیا گیا: اس کا سمجھنا تو کچھ دشوار نہیں پھر یہ مسئلہ اسقدر کیوں "مشکل" مشہور ہے؟
ارشاد ہوا: اس میں غور و تامل یا موجبِ حیرت (یعنی حیران کن) ہے یا باعثِ ضلالت (یعنی گمراہی کا سبب)۔ اگر اس کی تھوڑی بھی تفصیل کروں تو کچھ سمجھ نہ آئے گا بلکہ اوہام کثیرہ (یعنی کثیر وہم) پیدا ہوجائیں گے۔
اسکے بعد کچھ مثالیں بیان فرمائیں ، ان میں سے ہی ایک یاد رہی۔۔۔۔ مثلاً روشنی بالذات (یعنی بلاواسطہ) آفتاب و چراغ میں ہے، زمین و مکاں اپنی ذات میں بے نور ہیں مگر بالعرض (یعنی بالواسطہ) آفتاب (یعنی سورج) کی وجہ سے تمام دنیا منور اور چراغ سے سارا گھر روشن ہوتا ہے۔ اِن (یعنی زمین و مکاں) کی روشنی انہیں (یعنی آفتاب و چراغ) کی روشنی ہے۔ اُن (یعنی آفتاب وچراغ) کی روشنی اِن (یعنی زمین ومکاں) سے اٹھالی جائے تو وہ ابھی تاریکِ محض رہ جائیں۔
عرض کی گئی : یہ کیوں کر ہوتا ہے کہ ہر جگہ صاحبِ مرتبہ کو اللہ ہی اللہ نظر آتا ہے؟
جواب ارشاد ہوا: اسکی مثال یوں سمجھیئے کہ جو شخص آئینہ خانہ میں جائے وہ ہرطرف اپنے آپ ہی کو دیکھے گا، اسلیئے کہ یہی اصل ہے، اور جتنی صورتیں ہیں سب اسی کے ظلِ (یعنی عکس) ہیں مگر یہ صورتیں اسکی صفاتِ ذات کے ساتھ متصف (یعنی موصوف) نہ ہوں گی مثلاً سننے والی دیکھنے والی وغیرہ وغیرہ نہ ہوں گی۔ اسلیئے کہ یہ صورتیں صرف اس کی سطح ظاہری (یعنی جسم کے ظاہری حصے) کی ظل (یعنی عکسیں) ہیں ، ذات کی نہیں اور سمع و بصر (یعنی سننا اور دیکھنا) ذات کی صفتیں ہیں سطح ِ ظاہر کی نہیں لہٰذا جو اثر ذات کا ہے وہ ان ظلال (یعنی عکوس) میں پیدا نہ ہوگا بخلاف حضرت انسان کہ یہ ظل ِ ذاتِ باری تعالیٰ ہے لہٰذا ظلالِ صفات سے بھی حسبِ استعداد (یعنی بقدر صلاحیت) بہرہ ور (یعنی فیضیاب) ہے۔
پھر سوال کیا گیا: حضور یہ اب بھی سمجھ نہیں آیا کہ وہ ہرجگہ خدا کیونکر دیکھتے ہیں، اگر ان ظلال و عکسوں کو کہا جاوے تو یہ (اتحاد) ہے (وحدت) نہیں اور اتحاد کھلا الحاد و زندقہ (یعنی کفر و بے دینی) ہے اور اگر یہ ظلال و عکوس کو نہیں دیکھتے بلکہ انہیں عدمِ محض میں سلاتے ہیں ایک اللہ(عزوجل) کا جلوہ نظر آتا ہے۔ تو یہ خود بھی ایک ظل ہیں یہ بھی معدوم ہوئے تو نہ ناظر (یعنی دیکھنے والا) رہا اور نہ نظر، پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے کیا معنیٰ؟ وہ اس سے پاک ہے کہ کسی کی نظر اسے احاطہ کرے وہ سب کو محیط ہے نہ کہ محاط (یعنی وہ ہرچیز کا احاطہ کیئے ہوئے ہے مگر کوئی اس کا احاطہ نہیں کرسکتا) یہ میرا ایمان ہے کہ قیامت میں انشاءاللہ تعالیٰ دیدارِ الٰہی سے ہم مسلمان فیضیاب ہوں گے، مگر یہ سمجھ نہیں سکتا کہ روئیت (یعنی دیکھنا) کیونکر ممکن ہے جبکہ احاطہ ناممکن۔ اگر یہ کہا جائے کہ منظور (یعنی جسے دیکھا جائے) کو نظر کا محیط ہونا کچھ ضرور نہیں مثلاً فلک (یعنی آسمان) ہے کہ اس کا ایک حصہ انسان کی نظر میں سما سکتا ہے جہاں تک اسکی نظر پہنچتی ہے تو یہ تقریر وہاں جاری نہیں کہ وہ تجزی (یعنی تقسیم) سے پاک ہے۔ میں اپنا مافی الضمیر (یعنی دل کی بات) اچھی طرح ظاہر نہیں کرسکا مگر یہ جانتا ہوں کہ حضور میرے ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے میرا مطلب خیال فرما لیں گے۔
جواب ارشاد ہوا: ظلال و عکوس مرات ملاحظہ ہیں ، مراءت کا مَرئی (یعنی نظر آنے والی چیز) سے متحد ہونا کیا ضرور! علم بالوجہ میں وجہ مرات ملاحظہ ہوتی ہے، حالانکہ ذوالوجہ سے متحد نہیں بلاشبہ آئینہ میں جو اپنی صورت دیکھتے ہو کیا اس میں کوئی صورت ہے؟ نہیں بلکہ شعاع بصری آئینہ پر پڑ کر واپس آتی ہے اور اس رجوع میں اپنے آپ کو دیکھتی ہے۔ لہٰذا دہنی جانب بائیں اور بائیں دہنی معلوم ہوتی ہے۔ تو آئینہ تمہارا عین نہیں مگر دکھایا اس نے تہیں کو۔ ظلال اپنی ذات میں معدوم ہیں کہ کسی ذاتِ مقتضی وجود نہیں (یعنی وجود کا تقاضا نہیں کرتی)۔
کل شئیِِ ھالک اِلا وجھہ (پ 20 القصص 88) ترجمہ کنزالایمان : ہر چیز فانی ہے سوا اسکی ذات کے۔
مگر وجود عطائی سے ضرور موجود ہیں ۔ اسلام کا پہلا عقیدہ ہے کہ
حقائق الاشیاء ثابتۃ ۔ ترجمہ۔ اشیاء کی حقیقتیں ثابت ہیں ۔ (شرح عقائد نسفیہ مبحث حقائق الاشیاء ثابتۃ ص 9)
نظر سے ساقط (یعنی اوجھل) ہونا واقع سے عدم نہیں کہ نہ ناظر رہے نہ نظر۔ فی الواقع (یعنی درحقیقت) اس مشاہدہ میں خود اپنی ذات بھیا ن کی نگاہ میں نہیں ہوتی۔ اہلسنت کا ایمان ہے کہ قیامت و جنت میں مسلمانوں کو دیدارِ الٰہی بے کیف و بے جہت و بے محاذات (یعنی کیفیت و سمت و مقابلے کے بغیر) ہوگا۔ قال اللہ تعالیٰ
وجوہ یومئذنا ضرۃ الی ربھا ناظرۃ ۔ کچھ منہ تروتازہ ہوں گے اپنے رب (عزوجل) کو دیکھتے ہوئے (پ 29، القیامۃ 22، 23)۔
کفار کے حق میں فرمایا:
ترجمہ: بے شک وہ اس دن اپنے رب سے حجاب میں رہیں گے (پ 30 المطففین 15)۔
یہ کافروں پر عذاب بیان فرمایا گیا ہے تو ضرور مسلمان اس سے محفوظ ہیں۔ بصر احاطہ مرئی نہیں چاہتی۔ آیہ کریمہ
لاتدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار۔ ترجمہ؛ آنکھیں اسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں (پ 7 ، الانعام 103)۔
کا یہی مفاد (یعنی فائدہ) ہے کہ وہ ابصار وجملہ اشیاء کا محیط ہے اسے بصر اور کوئی شے محیط نہیں۔ فلک وغیرہ کی مثالیں اس کے بیان کو ہیں کہ بصر کو احاطہ لازم نہیں نہ یہ کہ وہاں بھی عدمِ احاطہ (معاذ اللہ) اسی طرح کا ہے وہاں بمعنی عدمِ ادراک ِ حقیقت وکنہ ہی رہا۔ یہ کہ "رءویت کیونکر" یہ کیف سے سوال ہے وہ اور اسکی رءویت کیف سے پاک ہے پھر کیونکر کو کیا دخل؟۔
سوال کیا گیا: ذاتِ باری تعالیٰ کے پرتو تو صرف حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ شیخ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ مدارج النبوت جلد ثانی کے خاتمہ میں فرماتے ہیں کہ انبیاء علیھم السلام مظہرِ صفاتِ الٰہیہ ہیں اور عامہ مخلوق مظہرِ اسمائے الٰہیہ ہے۔
وسید کل مظر ذات حق ست و ظھور حق دروے بالذات ست ۔ ملخصاً مدارج النبوۃ تکلمہ از صفاتِ کاملہ ج 2 ص 609)۔
تو تمام مخلوق ظلالِ ذات کس طرح ہوگی؟
ارشاد ہوا: اسماء مظہر ِ صفات ہیں اور صفات مظہرِ ذات اور مظہر کا مظہرِ مظہر ہے تو سب خلق مظہرِ ذات ہے اگرچہ بواسطہ یا بوسائط۔ شیخ کا کلام مظہرِ ذات بلاواسطہ میں ہے وہ نہیں مگر حضور مظہرِ اول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لفظ دیکھیئے کہ
ظھورِ حق دروے بالذات ست
یعنی حضور جان عالم صلی اللہ علیہ وسلم بلاواسطہ مظہر حق ہیں۔
امید ہے کہ یہی کافی ہوگا۔
والسلام