کچھ ماضی کے اوراق سے
سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہندوستان پر تغلب اور اسلام کی حمایت میں انگریزوں کے خلاف غیور مسلمانوں کا علم جہاد لہرانا اور علماء ربانیین کی حق پرست جماعت کا جنگ آزادی کی تحریک قائم کرنا اور 1857ء کے انقلاب عظیم میں سرکار برطانیہ کے فرمانبرداروں کا ایسٹ انڈیا کمپنی کے پنجے مضبوط کرنا۔ ایسے واقعات ہیں جنہیں پوری ایک صدی سے انگریزی اقتدار کو قائم رکھنے کے لیئے انگریز کے ایما پر حقیقت کے خلاف پیش کیا جاتا رہا۔
انگریزوں کے حامیوں کو ان کا مخالف اور مخالفوں کو حامی بتایا گیا۔ جن لوگوں نے صرف انگریز کو طاقتور بنانے کے لیئےا ن مخالف قوتوں کا مقابلہ کرکے سلطنت برطانیہ کے قدم سرزمین ہند میں مضبوط کیئے اور مسلمانوں کو انگریزوں کا غلام بنانے کی خاطر انگریزوں سے جہاد کرنے کو ناجائز قرار دیا۔ انہیں مجاہد و شہید کہا گیا۔ اور جنگ آزادی کے وہ ہیرو جو انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی پاداش میں قیدو بند کے ساتھ جلا وطنی کی مصیبتیں جھیلتے رہے۔ اور جزیرہ انڈیمان کی کالی کوٹھڑیوں میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ایسے مجاہد جوانمردوں کو انگریزوں کا حامی بزدل مشرک اور بدعتی کے نام سے موسوم کیا گیا۔
لیکن یہ یاد رہے کہ جس انگریز کی حمایت میں آج تک اصلی حالات کو چھپایا گیا اور واقعات کو ان کی صورت کو بدل کر قوم کے سامنے پیش کیا گیا۔ اب اس انگریز کا سہارا ختم ہوچکا ہے۔ اور وقت آگیا ہے کہ وہ واقعات اپنی اصل شکل میں سامنے آئیں اور بھولے بھالے مسلمانانِ پاکستان کے دل و دماغ اس دامِ تلبیس سے نجات پائیں۔ جس میں سو سال سے انہیں الجھا دیا گیا ہے۔
ہماری ایک پرانی مشترکہ پوسٹ فورم اور مکاشفہ کے تاریخ کےسیکشن میں دیوبندی مکتبہ فکر کی ہی کتابوں سے پردہ چاک کی صورت میں کھولا گیا تھا۔ اور چونکہ اس فساد کے اثرات اور بیج آج تک اپنا کام کررہے ہیں اسلیئے ہماری یہ تحریرات اسی اینٹائے پاکستان ایجنڈے کی مخالفت میں موجودہ واقعات کے تناظر میں ان کا تذکرہ کرتی ہیں۔
دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اور سید احمد بریلوی ساکن بریلی و مولوی اسمٰعیل دہلوی مصنف تفویۃ الایمان کے متبعین نے واقعاتِ مذکورہ بالا کے متعلق جو خیالات اسوقت تک عوام کے سامنے پیش کیئے۔ ان کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے۔
سید احمد صاحب بریلوی اور ان کے دست راست مولوی اسمٰعیل صاحب دہلوی نے خالصاً لوجہ اللہ جہاد فی سبیل اللہ کیا۔ اور یہی لوگ اسلام کے علمبردار تحریکاتِ اسلامیہ کے بانی ہیں۔ اور انہی کے نقشِ قدم پر چلنے والے لوگ جنگ آزادی کے رہنما ہوسکتے ہیں۔ جو مسلمان انکی جماعت سے الگ رہے۔ اور مسائل مذہبیہ میں ان کے ساتھ الجھے رہے۔ بالخصوص مولانا فضل حق خیرآبادی صاحب اور ان کے رفقاء وہم عقیدہ علماءاور سب اہل بدعت بزدل انگریزوں کے حامی اور مسلمانوں کی زنجیر غلامی کو مضبوط کرنے والے ملتِ اسلامیہ کے غدار ہیں۔ جنہوں نے نہ کبھی کسی اسلامی تحریک میں حصہ لیا۔ نہ جنگ آزادی میں آئے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسمٰعیلی گروہ اور اسکے امیر المؤمنین سید احمد صاحب جنہیں مجاہد فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔ کے تمام کارنامے انگریزوں کی حکومت کو سرزمین ہند میں مضبوط کرنے اور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیئےا ن کی قید ِ غلامی میں جکڑنے کے لیئے تھے۔ جس کی تصدیق بعد کے واقعات نے کردی۔ تاریخ کی روشنی میں اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو مجالِ انکار باقی ہی نہیں رہتی۔
نیز حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے رفقائے کار کے متعلق پوری ایک صدی تک جو غلط پروپیگنڈہ خوارج کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا بھی واقععات کی روشنی اور تاریخی شہادتوں کے پیش نظر بے بنیاد ہونا یقینی ہے۔
واقعات کچھ یوں ہیں۔ کہ جب سلطنت مغلیہ پر زوال کا دور آیا اور انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں برسر اقتدار آنے لگی۔ تو انگریزوں نے اپنی قوت کو مستحکم کرنے کے لیئے ملکی فضاء کا جائزہ لیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک پنجاب میں سکھوں کی طاقت اور سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کی قوت کمزور نہ ہوگی۔ اس وقت تک ہمارے قدم پوری طرح نہ جم سکیں گے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیئے انگریزوں نے سید احمد صاحب بریلوی اور مولوی اسماعیل دہلوی کو تاکا۔ اور انہیں پٹی پڑھائی کہ مسلمانوں کو یہ تبلیغ کرو کہ انگریزوں سے جہاد ناجائز ہے۔ (نوٹ: ہم اپنی پرانی پوسٹس میں اور سکینز لائبریری کے فورمز پر بارہا انکی کتابوں سے انکا لکھا پیش کرچکے ہیں)۔ یہاں جوکچھ لکھا جائے گا شہادتوں کی روشنی میں لکھا جائے گا۔ اور عام مسلمانوں کو سکھوں کے مظالم کی داستانیں سنا کر انہیں سکھوں سے جہاد کی تلقین کرو۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے بعض وہ اعمال جنہیں تم کفر شرک بدعت کہتے ہو۔ علی الاعلان بیان کرکے ایسے مسلمانوں کو کافر و مشرک قرار دو۔ جو ان کے مرتکب ہوتے ہیں۔ خصوصاً سرحدی علاقوں کے مسلمان عموماً اس قسم کے امور کو اچھا سمجھتے ہیں۔ (یعنی مزارات، زیارتوں، نذر نیاز، صدقہ خیرات میلاد البنی ﷺ و حنفیت) لہٰذا نہ صرف سکھوں بلکہ سرحدی مسلمانوں سے بھی لڑو تاکہ یہ دونوں قوتیں کمزور ہوجائیں۔ اور ہندوستان پر ہمارا تسلط پوری طرح قائم ہوسکے۔
اسی لیئے ہم پڑھتے ہیں کہ اسماعیل دہلوی سے جب برٹش سرکار کا پوچھا گیا کہ تم سکھوں کے خلاف جہاد کا کہتے ہو لیکن خود مرکز میں بیٹھ کر انگریزوں کی بات نہیں کرتے تو اس نے جواب میں کہا ایسی بے رویاء اور غیرمتعصب سرکار سے جہاد کرنا کسی طور جائز نہیں۔
چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام مقبوضہ ہندوستان میں سکھوں سے جہاد کے لیئے وعظ و تبلیغ کا منظم پروگرام شروع کردیا گیا۔ اور کتاب تفویۃ الایمان لکھ کر بزرگانِ دین و اولیائے کرام سے عقیدت رکھنے والے مسلمانوں کو ابوجہل کے برابر مشرک قرار دیدیا گیا۔ جیسے آج لبرل بے دین میڈیا اور ان کے خوارجی گماشتے ہر معاملہ کا تعلق ناموسِ رسالت سے جوڑ دیتے ہیں۔ ایسے ہی اس دور میں ہر غیراسلامی حرکت کو ایسے مسلمانوں پر بذریعہ پروپیگنڈہ تھوپا گیا تاکہ ان کے دل میں عقائد کے خلاف شکوک پیدا کیئے جاسکیں۔ یہ یاد رہے کہ انگریزوں کی ایک تنظیم نے اسی لیئے مشترکہ ہندوستان میں پہلے قادیانی بیج کاشت کیئے، اور پھر اسکے بھرپور فلاپ ہونے کے بعد ان کو گانٹھا گیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دیوبند کہلانی والی بظاہر (حنفی) جماعت کے عقائد تمام تر وہابیوں (غیرمقلدوں) والے ہیں جیسے یارسول اللہ مدد کو بریلویت کا نام دینا۔ میلاد منانے کو بدعت کہنا۔ جبکہ ان کے مخالف ان کے اپنے اکابر حضرت شاہ ولی اللہ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی وغیرہم کا ان کے عقائد کے بالکل متضاد ہونا ثبوتِ دیگرے ہیں۔
اس کتاب تفویۃ الایمان کی خوب اشاعت کی گئی کیونکہ یہ چال سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بدوؤں کا ایک قبیلہ تخلیق کیا گیا جو قرامطیوں پر مشتمل تھا اصلیت میں بحوالہ نواب صدیق حسن بھوپالی، اور جیسے آج آئیسیس تخلیق کی گئی ہے ویسے ہی وہابیت تخلیق کی گئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غیبی فرمان کی تصدیق ہوگئی کہ قرن الشیطان جہاں سے طلوع ہوگا وہی فساد ہوگا جو اس امت کو تقسیم کردے گا اور یہ سب سے شدید تقسیم ہوگی جو قیامت تک چلے گی۔ آج اسی قرن الشیطان (یعنی شیطان کا سینگ) بقول شیخ سلیمان بن عبدالوہاب نجدی اخوہ محمد بن عبد الوہاب نجدی شیخِ فرقہ۔ لہٰذا اس دور میں اور انگریزوں کے حسبِ منشاء مولوی اسمٰعیل نے بڑے زورو شور سے یہ تبلیغ کرنی شروع کردی کہ انگریزوں سے جہاد کرنا شرعاً جائز نہیں۔ سکھوں کے مظالم بھی سنائے جانے لگے۔ اور انگریزوں کی امداد سے ملک کے طول و عرض میں نام نہاد مجاہدین کی بھرتی شروع ہوگی۔ جابجا مراکز قائم ہونے لگے۔ اور عام تحریک کے ذریعے اس دور کے مفلوک الحال اور مظلوم مسلمانوں سے جہاد کے نام پر چندوں کی وصولی کا منظم پروگرام شروع کردیا گیا۔ جیسے آج کے دور میں مولوی فضل وغیرہ اور مولانا فضل الرحمٰن وغیرہ ہیں جو کہ چندہ تو غیراللہ سے مانگتے ہیں لیکن غیراللہ سے مانگنے کو شرک بھی قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں حتیٰ کہ باقاعدہ بیت المال قائم کیا گیا۔ سید احمد صاحب ساکن رائے بریلی اور مولوی اسمٰعیل دہلوی اپنے رفقاء کے ساتھ جہاد کے نام پر انگریزوں کی بنیادیں مضبوط کرنے اور مسلمانوں کی قیدِ غلامی کو سخت ترین بنانے کے لیئے میدانِ عمل کیطرف روانہ ہوئے۔ انگریزوں کی امداد سے ہرقسم کی سہولتیں مہیا تھیں۔ سامانِ رسد نقد رقوم اسلحہ کی سپلائی اور اس طرح کی امداد کے علاوہ ہرقسم کی امداد و اعانت نہ صرف انگریزوں بلکہ ہندوؤں سے بھی کیا گیا (بحوالہ حیاتِ طیبہ بدھ سنگھ، سیٹھ وغیرہ) ورنہ ظاہر ہے کہ ایسے وقت میں جب مسلمانوں کا اقتدار آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ اور غٰرملکی حکومت کے تسلط کا دور شروع ہوچکا تھا۔ یہ بات کسی طرح ممکن نہ تھی کہ ایسی بے بسی کے دور میں مسلمانوں کی کوئی جماعت سکھوں کی طاقتور حکومت پر حملہ آور ہونے کے لیئے گھر سے نکل کھڑی ہوتی۔
واقعات کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل ناقابلِ انکار ہے کہ اس جماعت کا جہاد کے نام سے سکھوں کے مقابلے پر جانا، انگریز کی ساز باز کے بغیر ہرگز نہ تھا۔ اس بات کو سمجھنے کیلیئے مندرجہ ذیل امور پر غور کرلیا جائے۔ تو بڑی آسانی سے حقیقتِ حال منکشف ہوسکتی ہے۔
اول؛ یہ امر واقعہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں اور سکھ ہردو انگریزی اقتدار کی راہ میں سنگ گراں کا حکم رکھتے تھے۔
دوم؛ یہ بھی صحیح ہے کہ انگریز کی سیاست ہمیشہ یہی رہی کہ وہ اپنے دشمنوں کو دشمنوں کے ہاتھوں ہی کمزور کرتا رہا۔ کیا آج بھی امریکہ جب عراق پر حملہ آور ہوا تھا اس نے سنی شیعہ تقسیم کو نہیں ابھارا؟ اور کیا آج اسی انگریز کے موجودہ دور کے پیروکار اسی کی پالیسی پر ملکِ پاکستان کو سنی شیعہ، پنجابی پٹھا، سندھی بلوچی ، کشمیری، اقلیتوں میں تقسیم کرنے کی اور ملکی نظریات کی بیخ کنی میڈیا کے ذریعے کرنے میں مصروف نہیں؟
تین؛ کسی ملک کے باشندے اس ملک کی حکومت کی ایما اور اسکی امداد و اعانت کے بغیر کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کرسکتے ہیں۔ نہ اپنے ملک میں کسی دوسرے ملک کے خلاف حملہ آوری کی تحریک چلا سکتے ہیں۔ یہ دونوں کام ملکی حکومت کی منشا کے خلاف ناممکن ہیں ۔ جیسے آج کے دور میں ہندوؤں کا فساد براستہ افغانستانی کی شوروی حکومت پاکستان میں کیا جارہا ہے اور عوام میں انتشار پھیلانے کے لیئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں۔
چہارم؛ یہ بات بہت زیادہ غوروفکر کی محتاج ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وجود ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کو تباہ و برباد کرکے کفر و الحاد کا نظام جاری کرنے اور ہمیشہ کے لیئے مسلمانوں کو غلام بنانے کی غرض سے عمل میں لایا گیا تھا۔ جیسے آج الحاد کو پھر سے ابھارا دیا جارہا ہے اور عوام میں جو جو ان سے متاثر ہوتے رہے ہیں وہ اگ رہے ہیں بے موسم کی مشرومز کی طرح۔ پھر انگریزوں نے پوری قوت حاصل نہ ہونے کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ جو مظالم برتے وہ کسی سے مخفی نہ تھے۔ نیز انگریزوں کے ناپاک عزائم سے بھی کوئی باخبر مسلمان ناواقف نہ تھا۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا۔ کہ اپنے وطن اور اپنے ملک اور اپنے گھر کو اس حالت میں چھوڑ کر سکھوں کی طرف رخ کرنا کس مصلحت پر مبنی ہوسکتا تھا؟۔ بالخصوص ایسے وقت میں جبکہ انگریزی اقتدار ابھی بالکل ابتدائی مرحلے پر تھا۔ باشندگانِ ملک بھی اسن کے مظالم سے پوری طرح متاثر تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ راجواڑوں اور نوابوں کو کس کس عیاری سے انگریز کے زیر تسلط لایا گیا وہ الگ سے ایک داستان ہے جسکی کچھ چھوٹی جھلکیاں ہیمفرے کے اعترافات میں پڑھے جاسکتے ہیں۔ شیطان کے یہی چند ہتھیار ہیں صرف شکلیں اور جگہیں بدلتی ہیں پیچھے مشینری میں صرف یہی چالاکیاں ہیں ۔ مسلمانوں میں جذبہ جہاد اپنی پوری شان کے ساتھ موجود تھا۔ جس کا ظہور حضرت مولانا احمد اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے ہمراہی مجاہدین کرام کے ان کارناموں سے ظاہر ہیں جو انہوں نے انگریز سے جہاد کے میدان میں پیش کئے۔ جنکی داستان طویل ہے۔ دنیا جانتی ہے۔ کہ ان مجاہدوں نے کس ہمت و جرات کیساتھ اپنے ملک میں انگریزوں سے جہاد کرکے دادِ شجاعت دی اور اپنے اس فرضِ منصبی کو پورا کردکھایا۔ جو اسوقت خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان پر عائد ہوتا تھا۔
آپ خود سوچیں! آخر کیوں نہ ایسا کیا گیا۔ کہ مولانا احمد اللہ شاہ صاحب کی طرح اندرونِ ملک میں خاموش تبلیغ کے ساتھ مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کیلیئے منظم کیا جاتا۔ اور پوری قوت کے ساتھ انگریزی اقتدار کے ساتھ ٹکر لی جاتی۔ ظاہر ہے۔ کہ جو دشواریاں سکھوں کے مقابلے میں پیش آئیں۔ انگریزوں سے جہاد کرنے میں متصور نہ تھیں۔ اور اگر یہ تسلیم ہی کرلیا جائے کہ انگریزوں کی طاقت اسوقت بھی اتنی زبردست تھی کہ اسکا مقابلہ آسان نہ تھا۔ اور کامیابی کا حصول مشکل تھا۔ تو میں عرض کروں گا۔ کہ سکھوں کے مقابلے میں یہ مزعومہ کامیابی کب حاصل ہوئی۔ رہی آسانی تو اسکا تصور امیر المؤمنینی کی وہ آن بان اور جوشِ جہاد و جذبہ ایمانی کی وہ شان جس کا اظہار کرتے ہوئے یہ نام نہاد مجاہد اٹھے تھے۔ قبول ہی نہیں کرتی اور ایسے جوشِ جہاد کی راہ میں انگریز کی یہ قوت کسی طرح حائل ہی نہیں ہوسکتی۔
پھر تاریخی شہادتوں کی روشنی میں انگریزوں سے جہاد نہ کرنے کا یہ عذر لنگ انتہائی مضحکہ خیز ہوجاتا ہے جسکا پروپیگنڈہ وہابیت دیوبندیت کے دونوں روپ میں کرتی آئی ہے۔
ہم ابھی عرض کرچکے ہیں کہ مولانا احمد اللہ شاہ صاحب اور ان کے رفقاء و مجاہدین نے اسی ماحول میں انگریزوں کے خلاف جہاد کی خاموش تبلیغ سارے ملک کے مسلمانوں میں کی۔ اور انہیں منظم کرکے انگریز کے خلاف وہ شاندار جہاد کیا جسکی یادگار رہتی دنیا تک قائم رہیگی۔ آخر وہ کونسا امر تھا جو اسمٰعیلی گروہ کیلیئے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے سے مانع رہا۔ زیادہ سے زیادہ یہاں بھی وہی نتیجہ برآمد ہوتا جو کسی بھی اور ذریعہ سے انہوں نے حاصل کرنا چاہا (اگر ہو تو)۔ ورنہ کہنا پڑے گا کہ سکھوں کے مقابلے میں ناکامی کا وبال اسمٰعیلی گروہ کی گردن پر ہے۔ جو سکھوں کے ہاتھوں نہیں مرے بلکہ پختون قوم کے غیور حنفی صوفی مسلمانوں نے بالاکوٹ میں انکو مارا۔ بہرنوع اسمٰعیلیات کے تحت یہ معمہ آج تک حل نہ ہوسکا۔ کہ انگریز کے مقابلہ میں جہاد کی شدید ضرورت اور اسکے اسباب و وسائل پائے جانے کے باوجود سکھوں کے نام نہاد مقابلے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کوئی عقلمند تاریخ سے واقفیت رکھنے والا اس بات کو کبھی تسلیم نہ کرے گا کہ اس کے گھر میں آگ لگی ہو اور وہ اپنا گھر جلتا چھوڑ کر سیکڑوں میل کی مسافت پر دوسروں کی آگ بجھانے چلا جائے۔
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعیجبی ست
جو شخص اپنے گھر رہتے ہوئے انگریزوں سے جہاد نہ کرسکا وہ صدہا میل کے فاصلے پر سکھوں سے جہاد کرنے جارہا ہے۔ کیا کہنے سبحان اللہ۔
کچھ کے ذہن میں آسکتا ہے کہ چونکہ سکھ چھوٹے دشمن تھے لہٰذا پہلے چھوٹے دشمن سے نجات حاصل کرکے بڑے کی طرف توجہ دی جاتی۔ تو یہ بالکل بیہودہ بات ہے کیونکہ اگر سکھوں سے ہاتھ ملا کر انگریزوں کو ماربھگایا جاتا تو آپس میں صلح صفائی کی زیادہ امید تھی جتنی دیر میں سکھوں سے لڑا گیا اتنی ہی دیر میں انگریز مزید طاقت حاصل کرچکتا۔ اور جو اس نے ان جھوٹے مجاہدین کے بل پر کیا جیسے آج کے دور میں کیا جارہا ہے۔ اسرائیل ، امریکہ، روس، اور بھارت اپنی پراکسیز کے ذریعے ہی تو ان ممالک پر قابض ہوسکے ہیں۔
پنجم؛ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک عرصے سے قائم تھی، اور مسلمانوں پر اس کے مظالم بھی نظروں کے سامنے تھے۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ سکھوں کے مظالم کی خبر سن کر ان مجاہدین کی قلوب مجروح ہوگئے۔ اور انگریزوں کے ظلم و ستم آنکھوں سے دیکھ کر بھی ان کے دل نہ پسیجے۔
اگر تعصب سے ہٹ کر ایک سخت انصاف پسند بن کر سوچیں تو یہی باتیں کافی ہیں سوکالڈ جہاد بالاکوٹ کا پول کھولنے کے۔ اس دور کے جہاد میں میں عوام کے عقائد بگاڑے گئے، ان کی لڑکیوں سے زبردستی شادیاں کی گئیں آج کے دور میں بھی ہم یہ سب کچھ ماضی قریب میں خود دیکھ چکے۔ ان کے دور میں بھی اصل دشمن امن سے رہا اور مسلمانوں کا ہی قتال کیا جاتا رہا اور آج کے دور میں بھی یہی کیا جاتا رہا۔
اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے؛
جن لوگوں کے دلوں میں اسلامی غیرت ملسمانوں کی مظلومیت کا احساس اور صحیح معنی میں جذباتِ جہاد پائے جاتے تھے انہوں نے وقت کے تقاضے کو سمجھا اور انگریز کے خلاف علم جہاد بلند کردیا گیا۔ اس دور میں بھی انگریز ایسے لوگوں کو (جاہل، ان پڑھ، ترقی پسندیت سے دور) گردانتے تھے آج بھی ہمارا میڈیا اور خوارج یہی بکواس کرکے عوام کو الجھاتے ہیں۔ اس دور میں رئیس المجاہدین حضرت مولانا احمد اللہ شاہ صاحب اور ان کے ہمراہی مجاہدینِ اسلام نے انگریز کے خلاف جہاد میں جو کارنامے پیش کیئے اور جسطرح قربانیاں دیں خاک و خون میں تڑپے، سینکڑوں مجاہدین کی صفوں کو انگریزی توپوں کے دہانوں پر رکھکر اڑا دیا گیا۔ اور بندوقوں کی گولیوں کی باڑھ کا نشانہ بنایا گیا۔ کسی باخبر مسلمان سے مخفی نہیں۔ اسی طرح امام المجاہدین حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی جنگ آزادی کے نامور مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے رفقائے کار نے انگریزوں کے خلاف عَلم جہاد بلند کیا۔ اور وہی کردار پیش کیا۔ جس کی ضرورت تھی ۔ ایمان اور جذبہ جہاد کے وہ جوہر دکھائے کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔ ان حضرات نے سمجھ لیا تھا۔ کہ اس وقت انگریز کے ساتھ جہاد کیئے بغیر کوئی چارہ کار مسلمان کے لیئے نہیں ہے۔ چنانچہ مولانا فضل حق خیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ نے جان پر کھیل کر جہاد کا فتوےٰ تحریر فرمایا اور اپنے ہم عصر علماء سے اس پر دستخط لیئے۔ اور دہلی کی جامع مسجد میں وہ فتویٰ جہاد خود پڑھ کر سنایا جس سے ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اور مسلمانوں کے دلوں میں دبا ہوا جذبہ جہاد ابھر آیا۔ مسلمان مجاہدوں نے جانبازی سے کام لیا۔ جس کی پاداش میں مولانا فضل حق خیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ کو مع ان کے رفقاء کار کے گرفتار کرلیا گیا۔ مولانا موصوف نے قیدو بند کی شدید اذیتیں جھیلیں۔ جس دوام بعبور دریائے شور کی سزا آپکو دی گئی۔ آپ کی باقی عمر جلاوطنی اور قید وبند کی صعوبتوں میں جزیرہ انڈیمان کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں بسر ہوئی۔ حتیٰ کہ آپ کی زندگی کے آخری لمحات وہیں ختم ہوگئے۔ اور جیتے جی اس قید و بند سے رہائی نصیب نہ ہوئی۔
اور جبکہ خوارج کے نام نہاد مجاہدیں سید احمد رائے بریلی اور اسمٰعیل دہلوی کو مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی مہارت کیوجہ سے انگریز روٹیاں پہنچاتے رہے (بحوالہ حیاتِ طیبہ از مرزا دہلوی)، جبکہ ان نام نہاد مجاہدین کا ایک فتویٰ انگریز کے خلاف نہیں ملے گا جیسا کہ آج بھی ان کا کوئی فتویٰ مودی کے خلاف نہیں ملتا۔
غازی ممتاز قادری شہید نے بھی عوام کے سوئے ہوئے ضمیر کو زندہ کیا ہے اور سوئی ہوئی امت کے شعور کو جگایا ہے کہ ہم وہ نہیں جنکو زمانہ بنا گیا۔ ہم وہ ہیں جو اپنا زمانہ آپ تخلیق کرتے ہیں۔ اور اسی عقیدے کی طاقت سے ہمارے اسلام نے پوری دنیا پر راج کیا تھا اور انشاء اللہ امام مہدی کی قیادت میں دوبارہ بھی وہی راج قائم ہوگا۔ ہم اور تم نہ ہوں گے لیکن یہ ہمارے ہاتھ کا لکھا انشاء اللہ ضرور پیش کیا جائے گا بارگاہ خداوندی میں اور تب فیصلہ ہوگا کہ کون امت کے ساتھ رہا اور کون تھا وہ جو دشمنانِ رسالت مآب کو سپورٹ کرتا رہا۔ اگر ملتِ اسلامیہ کے ان جانباز سپاہیوں کے جذباتِ جانساری آج تک فرو نہیں ہوئے اور نہ ان پاکباز مجاہدین کی گرمئی جہاد میں کوئی فرق آیا۔ گذشتہ دور کے ہرمرحلے پر ان جانشینوں نے ان کے کردار کو دہرایا مجاہد جنگ آزادی حضرت علامہ مولانا کفایت علی کافی رحمتہ اللہ علیہ کے وہ الفاظ دہراتے رہے اور اپنی جان شمع رسالت پر پروانوں کی صورت وارتے آئے ہیں کہ
نام شاہان جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں۔ حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا۔ اور وہ دینِ حسن ہے یعنی پاک صاف معطر مطہر دین۔ جس میں گلے نہیں کاٹے جاتے، جس میں بڑوں کی تمیز ادب ہوتا ہے، جس میں چھوٹوں پر شفقت کی تعلیم ہیں۔ جس نے مساوات کا درس دیا ہے جس نے انسانیت بتائی ہے۔ گزشتہ دور میں جن مجاہدین نے کامیاب جدوجہد کی اسکا ظہور قیام پاکستان کی صورت میں ہوا۔ آنیوالی نسلیں ان کے احسانات کو فراموش نہیں کرسکتیں۔ اور انشاء اللہ قیامت تک جنگِ آزادی کی ہرتحریک انہی کے نقشِ قدم پر قائم ہوکر کامیاب ہوگی۔ اے کاش! پنجاب کا علاقہ سکھوں کے ہاتھ سے نکل کر اسوقت انگریزوں کے ہاتھ نہ آچکا ہوتا۔ تو 1857ء کی یہ تحریک آزادی ایسا زبردست انقلاب تھا کہ جس کے اثرات سے انگریزی اقتدار کا خاتمہ ہوجانا لازمی امر تھا۔
مگر واہ رے اسمٰعیلی مجاہدو! تم نے اسی دن کے لیئے سکھوں کا علاقہ پنجاب انگریزوں کے حوالے کرنے کے لیئے اور پختونوں کا صفایا کرکے دیوبندیت وہابیت کے بیج کاشت کرنے کے لیئے علم جہاد بلند کیا تھا۔ کہ برے وقت میں یہی پنجاب و سرحد ڈوبتے ہوئے انگریز کے لیئے ساحل نجات ثابت ہو۔
جہاں اصلی مجاہدیں کا ذکر تک نہیں ٹیکسٹ بکس میں مگر وہیں پر سید احمد رائے بریلی و اسماعیل دہلوی سے لیکر گنگوہی مہاراج کی تذکرۃ الرشید ہو یا جعفر تھانیسری کی تواریخ عجیبہ، یہ سب ان کی کتابوں میں موجود ہے کہ انہوں نے کتنے فدویانہ انداز میں انگریز کی تعریف و توصیف کررکھی ہے کہ ان کی خطاؤں کو معاف کردیا گیا اور انکو انکی جائیداد واگزار کردی گئیں۔ ایسا ہی جب مسلمان انگریز کی کمزوری کی وجہ سے اور برہمن کے ظلم کی وجہ سے مجبور ہوگئے کہ مسلمانوں کے لیئےا لگ سے خطہ حاصل کیا جاسکے تو یہی کانگرس نواز انگریزوں کے شہہ پاروں نے ان کو کافر اعظم تک قرار دے دیا۔ یہی حسین مدنیوں یہی عطاء اللہ شاہ بخاریوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت میں صفحات کے صفحات سیاہ کرڈالے اپنے باطن کی طرح۔ کہیں امت کو اعتقادی مسائل کے مشکوک کرے تو کہیں پاکستان کی بنیادوں تک پر بکواس کرنے کے بعد بھی انکی ہی نسل لیڈر بن بیٹھی جب نوزائدہ مملکتِ اسلامیہ پاکستان، کروڑوں مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا بنی۔ یہی انگریز نواز لوگ اور بعد میں آج تک کانگرس نواز لوگ وہ ہیں جو پاکستان کی آجتک کی تمام تباہیوں کے دامے درمے قدمے سخنے ذمہ دار ہیں۔ اور اب ان کے ساتھ لبرلوں کے نام سے وہی انگریزی ملحدانہ مخلوق بھی شامل ہوچکی ہے جو پہلے پشت پر بیٹھ کر اپنے ان پتلوں کے ساتھ فساد کرواتی رہی۔
اللہ ہم سب کو ان فسادیوں اور ان کے سہولت کاروں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ناموسِ رسالت زندہ باد۔ غازی تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔ نہ صرف غازی بلکہ علم الدین شہید زندہ باد عامر چیمہ شہید بھی زندہ باد۔
مٹ گئے مٹ جائیں گے اعداء تیرے۔ نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
والسلام